7 اکتوبر 2025 - 18:37
طوفان الاقصیٰ کے پیغامات رہبر انقلاب کے بیانات کی روشنی میں

آج آپریشن "طوفان الاقصیٰ" کی دوسری سالگرہ ہے۔ رہبر انقلاب نے اس کے بارے میں فرمایا: "یہ آپریشن 'صہیونی ریاست کی درندگی اور لامحدود جرائم کے مقابلے میں ایک قوم کا غیورانہ اور فداکارانہ ردعمل' تھا۔ یہ ایسا واقعہ تھا جس نے نہ صرف اسرائیل کی ناقابل شکست ہونے کا افسانہ توڑ کر رکھ دیا، بلکہ فلسطین کی حقیقت کو دوبارہ رائے عامہ کی توجہ کا محور بنا دیا۔"

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی || آج 7 اکتوبر (2025ع‍)، تاریخی آپریشن "طوفان الاقصیٰ" کی دوسری سالگرہ ہے۔ یہ ایسا واقعہ ہے جس کے گذرنے کے ساتھ ساتھ ساتھ یہ حقیقت عیاں سے عیاں تر ہوتی جا رہی ہے کہ یہ محض ایک فوجی آپریشن نہیں تھا، بلکہ یہ فلسطینی قوم کی بیداری اور 'قدس کاز' کی دوبارہ بحالی کے راستے میں ایک تہذیبی اور سیاسی موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔

جیسا کہ رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے متعدد بیانات میں زور دیا ہے، طوفان الاقصیٰ 'صہیونی ریاست کی درندگی اور لامحدود جرائم کے مقابلے میں ایک قوم کا غیورانہ اور فدکارانہ ردعمل' تھا۔ یہ ایسا واقعہ تھا جس نے صہیونی ریاست کی مشروعیت (legitimacy) کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا اور اسرائیل کے ناقابل شکست ہونے کا افسانہ توڑ کر رکھ دیا۔

طوفان الاقصیٰ کی تشکیل کی وجوہات

مورخہ 7 اکتوبر 2023ع‍ کا آپریشن ایسے وقت میں ہؤا جب فلسطین اپنے تاریخ کے سب سے مشکل دور سے گذر رہا تھا۔ غزہ کے تقریبا 18 سال سے جاری محاصرے، مغربی کنارے میں نوآبادیوں کے کے تیزی سے پھیلاؤ، صہیونیوں کے مسجد الاقصیٰ پر بار بار حملوں، "قدس کے یہودیانے" کے منصوبے پر تیز رفتار عملدرآمد کرتے ہوئے فلسطین کی شناخت اور تشخص کو آہستہ آہستہ ختم کرنے کی راہ ہموار کر دی تھی۔ اسی دوران، ابراہیم معاہدے جیسے منصوبوں اور 'بھارت-مشرق وسطی- یورپ اقتصادی راہداری (آئمیک IMEC)' جیسے معاشی منصوبوں کے ذریعے صہیونی ریاست کو خطے کے نئے نظام کا مرکز بنانے کی کوشش کی جا رہی تھی؛ ایسا نظام جس میں فلسطین کا مسئلہ پس منظر میں چلا جائے اور مزاحمت آہستہ آہستہ ختم ہو جائے۔

ایسے ماحول میں، طوفان الاقصیٰ آپریشن - فلسطین کی بقا اور قومی شناخت کو برقرار رکھنے کے لئے ایک 'تزویراتی حکمت عملی اور حفظ ما تقدم کی بنیاد پر ایک اقدام'  تھا۔ تبدیلیوں کے عمل کو سمجھتے ہوئے، مکمل تباہی سے پہلے ہی، مقاومت نے کارروائی کی باگ ڈور سنبھالی اور بجلی کی طرح کے تیز آپریشن کے ذریعے طاقت کے توازن کو بدل دیا۔

طوفان الاقصیٰ کے پیغامات رہبر انقلاب کے بیانات کی روشنی میں

رہبر انقلاب نے اس واقعے کے بعد اپنے پہلے بیان میں10 اکتوبر 2023ع‍ کو فرمایا: "اے صہیونی ظالمو! قصوروار تم خود ہو؛ اس طوفان کا باعث تم خود ہو؛ تم نے خود اپنے اوپر مصیبت اتروا دی۔" رہبر انقلاب کا یہ کلام مقاومت کے منطق کی واضح تشریح ہے؛ طوفان الاقصیٰ نفرت یا جذبات کا نتیجہ نہیں بلکہ فلسطینی قوم پر دہائیوں کے قبضے، قتل و غارت اور تحقیر و تذلیل کا فطری نتیجہ تھا۔ آپ نے آگے جا کر فرمایا: "جب ظلم و ستم حد سے گذر جائے، جب درندگی انتہا کو پہنچ جائے، تو طوفان کا منتظر رہنا چاہئے"۔ (10 اکتوبر 2023ع‍)  درحقیقت، طوفان الاقصیٰ تاریخی طور پر جمع ہونے والے اس ظلم کا نتیجہ تھا جس کے سامنے فلسطینی قوم خاموش رہنے کو درست نہیں سمجھتی تھی۔

رہبر انقلاب نے اپنے مورخہ 4 اکتوبر 2024ع‍ کے خطاب میں، مقاومت کی ثابت قدمی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے، اس آپریشن کو 'تاریخی واپسی کا نقطہ' قرار دیا اور فرمایا: "فلسطین اور لبنان کے مجاہدوں کی مجاہدت نے صہیونی ریاست کو 70 سال پیچھے دھکیل دیا ہے۔" یہ تعبیر اس کاری ضرب کی گہرائی کی درست تصویر پیش کرتی ہے جو طوفان الاقصیٰ نے صہیونی ریاست کی سلامتی اور نفسیاتی بنیادوں پر لگائی؛ ایک ایسی ضرب جس نے نہ صرف "اسرائیل کے ناقابل شکست فوج" کے افسانے کو مکمل طور پر تباہ کر دیا، بلکہ قابض و غاصب ریاست کو ایک بار پھر اپنے بنیادی اندیشوں ـ یعنی 'اپنے وجود کے بقاء' کی فکرمندی میں مبتلا کر دیا۔

رہبر انقلاب نے گذشتہ سال حرم امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) میں زور دے کر فرمایا: "امریکہ، صہیونی عناصر، ان کے حواریوں اور خطے کی بعض حکومتوں کے ذریعے ایک وسیع جامع منصوبہ تیار کیا گیا تھا جس کے تحت خطے کے روابط اور قواعد اور فارمولوں کو تبدیل ہونا تھا۔" (6 جون 2024ع‍)

آپ نے فرمایا: "صہیونی ریاست کا خطے کی حکومتوں کے ساتھ تعلق اسی حکومت کی خواہش کے مطابق ترتیب پانا تھا جس کا مطلب تھا کہ صہیونی ریاست کا پورے مغربی ایشیا بلکہ پوری اسلامی دنیا کی سیاست اور معیشت پر قبضہ۔" (6 جون 2024ع‍)

امام سید علی خامنہ ای (حفظہ اللہ) نے زور دیا: "امریکہ اس منصوبے کے پیچھے تھا، برطانیہ اس منصوبے کے پیچھے تھا، عالمی صہیونی برادری اس منصوبے کے پیچھے تھی، خطے کی بعض حکومتیں پوری کوششیں کر رہی تھی اور اس منصوبے میں [صہیونیوں کے ساتھ] تعاون کر رہی تھیں؛ یہ منصوبہ اپنے آخری لمحات میں پہنچ چکا تھا۔ یعنی بس تھوڑا سا وقت رہ گیا تھا کہ یہ طویل مدتی منصوبہ اور یہ نقشہ عملی طور پر نافذ ہو جاتا؛ اسی نازک لمحے پر طوفان الاقصیٰ کا حملہ شروع ہؤا اور اس نے دشمن کے تمام منصوبے خاک میں ملا دیئے۔" (6 جون 2024ع‍)

عزت مآب رہبر معظم نے یہ بھی یاددہانی کرائی کہ ""15 مہر (7 اکتوبر) کے طوفان نے دشمن کے دقیق اور باریک بینانہ نقشے کو بے اثر کر دیا اور گذشتہ آٹھ مہینوں میں جو صورت حال بنی ہے، اس کے پیش نظر اس بات کی کوئی امید نہیں ہے کہ وہ اس نقشے کو دوبارہ زندہ (بحال) کر سکیں گے۔" (14 جون 2024ع‍)

امام خامنہ ای (حفظ اللہ) نے زور دے کر فرمایا: "آپ دیکھ رہے ہیں کہ صہیونی ریاست اس قدر شدت اور سنگدلی سے غزہ کے نہتے لوگوں پر حملہ کر رہی ہے، یہ اس نقشے کے ناکارہ ہو جانے پر اس ریاست کا غیظ اور غصے پر مبنی رد عمل ہے۔ آپ یہ دیکھ رہے ہیں کہ امریکی حکومت ساری دنیا کی نظروں کے سامنے ان ظالمانہ کاروائیوں میں مدد دے رہی ہے، یہ ان کا اس نقشے کے ناکارہ ہو جانے پر جذباتی رد عمل ہے جسے انہوں نے بڑی محنت سے تیار کیا تھا، طوفان الاقصیٰ نے ایسا کارنامہ انجام دیا ہے۔" (14 جون 2024ع‍)

فلسطین کی بحالی کی تزویراتی اور سیاسی جہتیں

گذشتہ دو سالوں میں، طوفان الاقصیٰ سے جنم لینے والے واقعات نے واضح طور پر دکھایا ہے کہ اس آپریشن نے علاقائی اور عالمی سطح پر "فلسطین کی بحالی" کو ممکن بنایا ہے۔ وہ معاملہ جو اکتوبر 2023 سے پہلے عرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے اور مشترکہ معاشی منصوبوں کے سائے میں پس منظر میں چلا گیا تھا، وہ اچانک عوامی رائے کے مرکز میں واپس آ گیا ہے۔

آپریشن کے پہلے دنوں سے ہی، غزہ کے لوگوں کی حمایت میں دنیا بھر میں لاکھوں افراد سڑکوں پر نکل آئے۔ یورپ، امریکہ اور ایشیا کے دارالحکومتوں میں صہیونی مخالف ریلیوں کی بے مثال لہر نے فلسطین کاز کو ایک بار پھر سے عالمی مکالمے کا مرکز بنا دیا۔ اس عرصے کے دوران، کئی یورپی ممالک نے پہلی بار سرکاری طور پر فلسطین کو تسلیم کیا؛ یہ ایسا واقعہ ہے جو بلا شبہ، فلسطینیوں کے حق میں، عالمی ضمیر کے توازن میں تبدیلی، کا بلاواسطہ  نتائج میں سے ایک ہے۔

دوسری طرف، صہیونی ریاست کو ان دو سالوں کو اپنے سیاسی اور سماجی ڈھانچے میں ایک بے مثل اور روزافزوں بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ نیتنن حکومت صہیونی ریاست کے لئے قانونی کے بحران (یا قانونی بحران [Legitimation crisis] یعنی انتظامی معاملات اور اداروں کی اپنی ذمہ داریوں میں ناکامی اور قیادت پر آبادکاروں کی بداعتمادی) کی علامت بن گئی ہے؛ یہاں تک کہ اسرائیل کے دیرینہ اتحادی ممالک ـ یعنی امریکہ اور یورپ ـ بھی اس غیر مشروط حمایت جاری رکھنے کے قابل نہیں رہے ہیں۔ بین الاقوامی کریمینل کورٹ میں دائر جنگی جرائم کے مقدمات اور اور تل ابیب اور حیفا میں وسیع پیمانے پر احتجاج، قانونی حیثیت کے بتدریج کمزور پڑ جانے کی علامت ہیں۔

محور مقاومت کی بحالی اور توازن کی نئی تعریف

طوفان الاقصیٰ نے غرب ایشیا میں طاقت کے توازن کو بھی تبدیل کر دیا۔ اس سے پہلے، اسرائیل خود کو علاقائی سلامتی کے نظام پر حاکم اور برتر تزویراتی پوزیشن میں دیکھتا تھا۔ لیکن فلسطینی مزاحمت نے سیاسی اور اخلاقی طور پر محور مقاومت کی حمایت سے اس نظام کو چیلنج کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ غزہ، مغربی کنارے اور پھر لبنان، یمن اور عراق کے محاذوں سے یکے بعد دیگرے ہونے والے حملوں سے معلوم ہؤا کہ فلسطین اب اکیلا نہیں ہے۔

رہبر انقلاب نے "نماز جمعۂ نصر" کے خطبات میں واضح طور پر فرمایا کہ "طوفان الاقصیٰ اور غزہ و لبنان کی ایک سالہ مزاحمت نے غاصب ریاست کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ اس کی سب سے بڑی فکرمندی، 'اپنا وجود برقرار رکھنا' ہے"۔ یہ بات اس تزویری حکمت عملی کے عملی نفاذ کی نشاندہی کرتی ہے جسے برسوں پہلے اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے وضع کیا گیا تھا: علاقائی اقوام حریت پسند قوتوں کی طرف سے اسرائیل کا بتدریج محاصرہ ۔

فلسطین کے حوالے سے عالم آگہی اور رائے عامہ کی ضمیر میں تبدیلی

طوفان الاقصیٰ کے بعد 'فلسطین کی بحالی' کے اہم مظاہر میں سے ایک' مزاحمت و مقاومت کے تصور کے بارے قوموں کی عمومی آگاہی میں آنے والی تبدیلی ہے۔ ماضی میں، مغربی ذرائع ابلاغ فلسطینی مزاحمت کو عدم تحفظ کا باعث قرار دے رہے تھے اور وہ اپنے اس شیطانی مشن میں کامیاب بھی ہو گئے تھے؛ لیکن آج، غزہ میں صہیونی ریاست کے جرائم کی تصاویر کے وسیع پھیلاؤ کے ساتھ، فلسطین کی مظلومیت کی داستان مغرب کے سرکاری پروپیگنڈے اور ان کے 'روایتی بیانئے" کی جگہ لے چکی ہے۔

رہبر انقلاب نے اپنے تازہ بیان میں زور دے کر فرمایا: "طوفان الاقصیٰ ایک قانونی اور بین الاقوامی تھا اور حق بجانب فلسطینی ہیں"۔ یہ اصطلاح (یعنی طوفان الاقصیٰ) آپریشن کی قانونی اور اخلاقی بازخوانی (دوبارہ خواندگی کا عمل Re-reading) ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قبضے اور نسل کشی کے خلاف قانونی دفاع ایک ایسا حق ہے جس کو بین الاقوامی اصولوں کی بنیاد پر فلسطینی قوم کے لئے تسلیم کیا گیا ہے۔

عسکری جھٹکے سے عالمی بیداری تک

اب طوفان الاقصیٰ کی دوسری سالگرہ ہے؛ آج دنیا کو ایک نئی حقیقت کا سامنا ہے۔ صہیونی ریاست عسکری تعطل (Dead-lock)، سیاسی تنہائی اور قانونی جواز کے بحران میں الجھ چکی ہے، مشروعیت (Legitimacy) کھو چکی ہے؛ جبکہ دوسری طرف فلسطینی قوم دہائیوں کی فراموشی اور دباؤ کے بعد ایک بار پھر عالمی مسائل کے مرکز میں واپس آ گئی ہے۔ جیسا کہ رہبر انقلاب نے اکتوبر 2024ع‍ میں فرمایا: "تم نے فلسطینی قوم کے ساتھ کیا کیا؟ جب ظلم حد سے بڑھ جائے تو طوفان کا انتظار کرنا چاہئے۔" (10 اکتوبر 2024ع‍)

طوفان الاقصیٰ دہائیوں کے قبضے اور تحقیر و تذلیل کا جواب، لیکن اس سے بھی بڑھ کر، یہ ایک مقصد کی دوبارہ پیدائش تھی۔ اس آپریشن نے نہ صرف صہیونی ریاست کے سلامتی کے نظام کو بدل ڈالا، بلکہ تاریخ کے بیانئے کو بھی تبدیل کر دیا؛ ایسا بیانیہ جو اب فلسطین کو [ظلم و ستم اور قبضے اور غصب کے] بھولے بسرے 'شکار (Victim)' کے بجائے 'عالمی ظلم کے خلاف مزاحمت اور بیداری کے علمبردار' کے طور پر دیکھتا ہے۔

طوفان الاقصیٰ نے فلسطین کو زندہ کیا، کیونکہ اس نے حقیقت اور سچائی کو عالمی ضمیر میں کو دوبارہ زندہ کر دیا؛ اور یہ ایک مظلوم قوم کی غاصب طاقت کے خلاف سب سے بڑی فتح ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha